Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر13

صبح ہوگئی تھی۔۔۔پر تینو ماں بیٹیاں ایک پل کے لیے نہیں سوئی۔۔۔آج کا دن انھیں بہت ہی بھاری لگ رہا تھا۔۔۔ ہانیہ۔۔۔؟؟پاکیزہ بیگم نے اسے آواز دی۔۔ جی امی۔۔؟؟ بیٹا تم اپنی ضرورت کی چیزیں رکھ لو۔۔۔اور مجھے شازل کا نمبر لکھ کر دو۔۔تاکہ میں نیچے جا کر اسے فون کروں پوچھو کہا پہنچا۔۔میں چاہتی ہوں۔۔تمہارے ابو کی غیر موجودگی میں تمہیں لے کر چلا جاۓ۔۔۔ انکی بات پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔اور کچھ دیر بات پاکیزہ بیگم کو شازل کا نمبر لکھ کر دیا۔۔۔ چلو سجل تم بھی میرے ساتھ چلو۔۔عالیہ کا خیال رکھنا کہی وہ میری اور شازل کی باتیں نہ سن لے۔۔۔ جی ٹھیک ہے امی چلے۔۔۔کہتے ہوئے دونو ایک ساتھ کمرے سے نکلی۔۔۔


ابھی وہ نیچے آئی ہی تھی کہ عالیہ پر نظر پڑی۔۔۔جو شاید انکا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ارے اچھا ہوا بھابھی آپ خودی آگئی ورنہ میں آرہی تھی۔۔۔عالیہ بیگم شیطانی مسکراہٹ چہریں پر سجائے بول رہی تھی۔۔۔ کیوں۔۔۔پاکیزہ سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔ یہ صبح ہی صبح ہانیہ کا نکاح کا جوڑا بھیجا ہے نجمہ نے۔۔۔وہ تو منگنی کا جوڑا بھیج چکی تھی۔۔پر پتا نہیں بھائی صاحب کو ایک دم کیا ہوگیا۔۔جو نکاح کا کہہ دیا اور ساتھ ہی رخصتی۔۔۔نجمہ تو خود بہت حیران ہوئی تھی۔۔۔پر میں نے یہ کہہ کر بات سمبھل لی کے اس کی خالہ بھی رشتہ مانگ رہی ہے۔۔۔پر بھائی صاحب چاہتے ہیں کہ وہ عماد کے ساتھ ہی ہانیہ کی شادی کریں۔۔اسلیے ایک دم ہی شادی کا کہہ دیا۔۔۔۔ٹھیک کیا نہ میں نے بھابھی۔۔۔عالیہ معصومیت سے بولی۔۔۔ تم سب کچھ ہی ٹھیک کرتی ہو۔۔۔غلط تو کبھی تم نے کیا ہی نہیں ہے۔۔۔جاؤ تیاری کرو جا کر۔۔۔دیر ہو رہی ہے۔۔ پاکیزہ بیگم کا لہجہ سرد تھا۔۔۔ جی جی میں اپنی ہانیہ کو دیکھ آؤں کہتے ہوئے اوپر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ عالیہ کے جاتے ہی سجل انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔امی آپ بھائی سے بات کریں میں ماہ نور کو دیکھتی ہوں کہی وہ آ نہ جاۓ۔۔۔ ہمم۔۔ٹھیک ہے۔۔۔ شازل سے بات کرنے کے بعد پاکیزہ مڑی ہی تھی جب پیچھے سے شنواری صاحب نے اسے پکارہ۔۔۔ انکی آواز پر تو جیسے پاکیزہ بت بن گئی۔۔۔ کس سے بات کر رہی تھی تم۔۔۔؟؟شنواری صاحب نے رعب دار آواز میں پوچھا۔۔۔ وہ میں اماں جی سے بات کررہی تھی۔۔۔خود کو کمپوز کرتی بہت ہی مطمئن انداز میں بولی۔۔۔ کیوں۔۔۔؟؟ کیا مطلب کیوں۔۔۔میں انھیں نہ بتاؤں کہ ہانیہ کی آپ زبردستی شادی کر رہے ہیں۔۔۔ پاکی زبان کو لگام دو۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے میں اپنی بیٹی کے ساتھ برا کر رہا ہوں۔۔۔وہ تو نہ سمجھ ہے تم تو عقل رکھتی ہو۔۔۔تم یہ نہیں سوچتی اگر شازل سے اسکی شادی ہو بھی گئی تو تمہاری بہن میری بچی کا کیا حال کریں گی۔۔۔اب کی بار انکا انداز نارمل تھا۔۔۔ دیکھیں جو آپا نے کیا وہ غلط تھا لیکن اس کی سزا ہم بچوں کو کیوں دیں۔۔۔پاکیزہ دکھ سے بولی۔۔۔ میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔مہمان آنے والے ہیں۔۔۔جاؤ جا کر تیاری کرو۔۔۔ پر آپ ایک بار۔۔۔اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی شنواری صاحب جا چکے تھے۔۔۔


ہانیہ خاموشی سے تیار ہوگئی تھی۔۔۔وہ چاہتی تھی شازل کے آنے سے پہلے وہ کوئی بھی ہنگامہ نہ کرے۔۔اسلیے بینا کسی احتجاج کیے وہ تیار ہوکر بیٹھی تھی۔۔ اب اسے بس شازل کا انتظار تھا کہ وہ جلدی سے آجاۓ اور اسے یہاں سے آکر لے جاۓ۔۔۔ پاکیزہ بیگم اندر آئی تو ہانیہ انکی طرف لپکی۔۔۔ امی شازل آگئے۔۔۔؟؟آپ نے تو کہا تھا کہ وہ آدھے گھنٹے میں آرہے ہیں۔۔۔پھر وہ ابھی تک کیوں نہیں آئے۔۔۔؟؟ ہانیہ مجھے اس نے یہی کہا تھا۔۔پر پتا نہیں وہ کیوں نہیں آیا۔۔۔میں تو خود بہت پریشان ہوں۔۔۔اب تو مہمان بھی آ چکے ہیں۔۔۔ امی آپ نے دوبارہ فون کرنا تھا۔۔پوچھنا تھا وہ کہا پہنچے۔۔۔۔ہانیہ نے تڑپ کرکہا۔۔۔ بیٹا میں نے دوبارہ فون کیا ہے پر اس نے فون نہیں اٹھایا۔۔۔پاکیزہ بیگم دکھ سے بولی۔۔۔ اور ہانیہ کو تو انکی بات پر پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ امی ایسا نہیں ہوسکتا وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے وہ آئے گے۔۔۔ہانیہ حلق کے بل چلائی۔۔۔ ہانیہ صبر سے کام لو۔۔۔الله پر یقین رکھو وہ تمہارے لیے بہتر کریں گا۔۔۔ امی آپ کہتی ہیں صبر کروں بتائیں کیسے کروں۔۔۔مجھے کسی ان چاہے انسان کے حوالے کر رہے ہیں آپ لوگ اور پھر یہ بھی کہتی ہیں صبر کروں۔۔۔ہانیہ طنزیہ ہنسی۔۔۔ ہانیہ میں نے جو ہوسکا کیا۔۔۔اگر وہ اب نہیں آیا تو اسے ایکدم مجبوری بن گئی ہوگی۔۔۔ امی میری زندگی داؤ پر لگی ہے اور آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ انکی مجبوری ہو گی۔۔۔وہ ایسے کس طرح کر سکتے ہیں۔۔۔ہانیہ پاگلو کی طرح رو رہی تھی۔۔۔ اس پہلے پاکیزہ کچھ کہتی۔۔۔ماہ نور اندر آئی۔۔ تائی امی۔۔۔بارات آگئی ہے۔۔۔اور نکاح خواہ بھی۔۔۔آپی کو نیچے لے کر چلنا ہے۔۔۔ تم جاؤ میں لا رہی ہوں۔۔۔ جی اچھا۔۔۔ کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔ امی میں نہیں جاؤں گی۔۔۔میں کسی اور شادی نہیں کرونگی۔۔۔ہانیہ چیخی۔۔۔ ہانیہ اب تمہیں عماد سے شادی کرنی ہوگی۔۔۔اور کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔دیکھو اب کیا ہوسکتا ہے شازل تو آیا نہیں۔۔۔پاکیزہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔ کیا واقعی میں ابو ٹھیک کہہ رہے تھے کیا واقعی شازل صرف اس کے ساتھ ٹائم پاس کر رہا تھا۔۔۔مطلب شازل نے اسے دھوکہ دیا ہے۔۔۔ایک پل میں سب سوال اسکے سامنے گھومنے لگے۔۔۔ ہانیہ چلو دیر ہو رہی ہے۔۔۔پاکیزہ بیگم نے اسکا بازو کھینچ کر باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ ہانیہ نے کچھ نہیں کہا اب کی بار وہ چیخی بھی نہیں۔۔۔شاید وہ جانتی تھی کہ اس کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔وہ اگر شور مچاتی تو کس کے لیے وہ تو آیا ہی نہیں۔۔۔جس نے اس سے کسی بھی حال میں ساتھ نہ چھوڑنے کا وعدہ لیاتھا اور وہی بیچ راستے میں چھوڑ گیا۔۔۔ عماد کے برابر میں ہانیہ کو بیٹھا دیا گیا۔۔۔نہ چاہتے ہوۓ بھی اسکی نظر بھٹک کر داخلی دروازیں پر پڑی تھی۔۔۔اسے لگا تھا شاید وہ آجاۓ۔۔۔لے جاۓ سب سے چرا کر اسے۔۔پر ایسا نہیں ہوا۔۔۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔وہ اسے لینے نہیں آیا تھا۔۔ اسے پتا ہی نہیں چلا کب نکاح نامہ اسکے سامنے کیا گیا۔۔۔ جس پر اب شنواری صاحب دستخط کرنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔ انکی آواز پر وہ چونکی۔۔۔ شنواری صاحب نے اسکے ہاتھ میں پنسل تھمائی۔۔۔پنسل پکڑتے ہوئے ہانیہ نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔جس پر انہوں نے سر جھکا لیا۔۔۔قصور تو انکا بھی نہیں تھا بیٹی کے لیے جو وہ کر سکتی تھیں انہوں کیا تھا۔۔۔پر شاید اسکی قسمت میں شازل نہیں بلکہ عماد لکھ دیا گیا تھا۔۔۔ پھر سر جھکا کر نکاح نامہ پر اپنے ہاتھ رکھیں۔۔۔دستخط کرتے ہوئے ہانیہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ اور اسے آج واقعی یقین ہوگیا تھا۔۔۔کے ہر محبت کا انجام نکاح نہیں ہوتا۔۔۔کچھ ہوتے ہیں جو بیچ راستے میں چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔اور پھر بات قسمت پر ڈال دی جاتی ہے۔۔۔

   0
0 Comments